"اسلام" دین یا مذہب؟

از قلم محمد بلال

معنی کے لحاظ سے مذہب اور دین دونوں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ دونوں کے معنی”طریقہ” کے ہیں۔مثال کے طور پر جیسے میں آپ سے پوچھوں کے آپ آدمی ہیں یا انسان۔
لیکن اصطلاحی اعتبار سے دین اور مذہب دو الگ الگ معنی رکھتے ہیں۔

:مذہب تین چیزوں کا مجموعہ ہے

(Beliefs)  عقائد •

(Worship)  عبادات •

(Social Customs)  سماجی رسوم و رواج •

اور دین صرف عقائد ،عبادات ،سماجی رسم و رواج تک محدود نہیں۔ دین کہتے ایک مکمل نظام کو جس ان تین چیزوں کے ساتھ تین اضافی چیزیں بھی شامل ہ

(Political System)  سیاسی نظام •

(Economic System)  معاشی نظام •

(Social System)  سماجی نظام •

مذہب بس انفرادی حد تک محدود ہوتا ہے اس میں ہر انسان آزاد ہے کیوں کہ اس کے اپنے عقائد و عبادات و رواج ہیں جو لازم نہیں کہ کسی دوسرے پر لاگو ہوں۔ پر اسلام ہمیں جو زمہ داریاں دیتا ہے اورجو احکامات سناتا ہے وہ بس مذہب کی حد تک نہیں ہے کہ بس ہم انفرادیت داعی بن کر اپنے حُجروں یا گھروں تک محدود رہ جائے بلکہ اسلام ہم سے جو مطالبہ کرتا ہے وہ ایک مکمل سیاسی ،معاشی اور سماجی نظام کا مطالبہ ہے جس میں قوانین شامل ہو

شہریوں کے متعلق،
•جرم کے متعلق،
شہادت کے متعلق،
•وراثت کے متعلق،
•حلال اور حرام کے متعلق،
•حق اور باطل کے متعلق۔

اور یہ سارے امور جو اسلام کے مطالبے میں پیش ہوئے یہ سب مذہب سے اوپر دین(ایک اعلی تصور نظام) میں شامل ہیں۔

آپ کا اٹھنابیٹھنا، اوڑھنابچھونا، کاروبار اور معملاتِ زندگی جس کے مطابق ہوں گے وہی آپ کا دین ہوگا۔ اور ایک مسلمان کا دین اسلام ہے(بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔[آل عمران-19])جو مسلمان کو اُس کے 24 گھنٹے کی زندگی کے اصول سکھاتا ہے۔

“میرے نزدیک اسلام مذہب نہیں ‘دین’ ہے”
کیونکہ اگر یہ مذہب ہوتا تو مکمل نظام زندگی پیش نہ کرتا بس عبادات اور عقائد تک محدود رہتا۔
اس نسبت سے دین ایک مکمل اجتماعی نظام کا نام ہے جبکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہب انفرادی آزادی کا نام ہے۔
پورے قرآن میں بھی اسلام کیلئے دین ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.

“آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔”
[ المائدة، 5 : 3]

ہمیں مذہب کے اس مختصر انفرادی تصور کو چھوڑ کر اللہ کے سچے دین کے مطابق انفرادی طور پر اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگیاں گزارنی چاہیں اور اجتماعی طور پر اس نظام کے نفاذ کے لیے دوڑ دھوپ کرنا چاہیئے۔

بقول اقبال:
~ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *