دورِ جدید اور اھلِ اسلام

از قلم فرمان وحید

دنیا کے بدلتے ہوئے روز و شب اس کو جدید سے جدید تر بناتے جارہے ہیں۔ مادی و فکری جدیت نے انسان کو ماضی کے مقابلے میں از حد بدل دیا ہے۔ آئے دن بلند عمارتوں، جدید مشینری اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہوا انسان فکری طور پر بھی کئی نظریات کو اپنا چکا ہے۔
“سوشلزم، جمہوریت، سرمایہ داری، کمیو نزم اور لبرلزم” جیسے افکار کو دورِ جدید کی ضرورت مانا جانے لگا ہے۔ کیونکہ یہ نظریات انہیں سیاست، معیشت و معاشرت کوچلانے کی ترکیب دیتے ہیں۔

دورِ جدید میں یہ نظریات جتنے ضروری بن چکے ہیں ” مذھب” اتنا ہی غیر ضروری بن چکا ہے، کیونکہ اہلِ جدت کے مطابق مذھب دور جدید میں ایک پرائیویٹ معاملے کے علاوہ کچھ نہیں جس پر عمل کیا جائے یا نا کیا جائے دونوں برابر ہیں۔

اسلام دنیا کا وہ واحد” دین” ہے جس نے دنیا کو صرف عبادات تک محدود نہیں رکھا بلکہ “سیاست، معیشت اور معاشرت” کے طریقہ کار سے بھی روشناس کرایا جس پر عمل کرکے اہلِ اسلام نے مشرق کے بغداد سے لے کر مغرب کے اسپین تک وہ کارنامے سرانجام دیے جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔

لیکن اہلِ اسلام بھی اہلِ جدت کے راستے پر نکل پڑے، اور اس راستے پر اس طرح جمے ہوئے ہیں جس طرح شہد کی مکھی اپنے چھتے کے ساتھ جڑی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج وہ دنیا میں اپنی پہچان بھلا چکے اور پھر “دہشتگرد، قدامت پسند، پسماندہ اور بیکار” جیسے القابات سے سے نوازے جاچکے حالانکہ فلسطین سے ایغور تک ان پر ظلم کی انتہا ہوچکی ہے، لیکن پھر بھی وہ بے یار و مددگار ہیں کیونکہ وہ اس شیر کی طرح بن چکے ہیں جو اپنی شناخت بھلاکر سرکس میں چابک کے زور پر ناچنے والا بندر بن چکا ہے حالانکہ اس کا کام جنگلوں پر بادشاہت ہے۔

اہل اسلام پر ذمہ داری ڈالی گئی :
“وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پُورے کے پُورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔”
(التوبہ۔33)

اس ذمہ داری سے اھل اسلام سبکدوش ہوئے اور ان پر ذلت تھوپ دی گئی۔ بلکل بنی اسرائیل کی طرح جب انہوں نے تورات سے منہ موڑا۔

اھلِ اسلام کی بقا دینِ اسلام ہی میں ہے۔ دورِ جدید میں اسلام کا نفاذ کرکے اپنی قوم اور پوری دنیا کو رسول اللّٰہ ﷺ اور صحابہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک ایسے بابرکت نظام سے روشناس کرانا ہوگا جس کی ذمہ داری ان پر اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز و روزہ اور یہ کرتے ہوئے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواھ سے بالاتر ہونا ہوگا۔

~وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *